Friday, October 16, 2015

ہائے ! ان فرمانبرداروں کا تابع فرماں رہنا

ہائے ! ان فرمانبرداروں کا تابع فرماں رہنا
ہمارے اعلیْ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ آمرانہ معاشرتی جمہور کے مقابلے کو سعی لاحاصل سمجھتے ہیں۔
بدلاو وسلجھاو کی فطری خواہش جو کہ دوران تعلیم مشاہدات اور تربیت سے پروان چڑھی ہوتی ہے اس کو عملی زندگی میں جب پورا کرنے کا
وقت آتا ہے تو اس وقت جمودی جمہور کے آگے ہتھیار ڈال دینے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے۔ اگر تعلیم انسان کو گونگا بنا رہی ہو تو ایسی تعلیم سے گنوار ہونا بدرجہا بہتر ہے کیونکہ بالآخر مواخذہ بھی تو بمطابقِ علم وعقل ہی ہونا ہے۔معاشرتی اور سماجی معاملات میں نوجوانوں کا مروجہ طریقہ کار میں اپنے بڑوں کی ہر حال میں اطاعت، فرمانبرداری
کا درجہ تو حاصل کر رہی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ فکری موت کا پیغام ہوتی ہے۔جب ان اعلیْ تعلیم یافتہ لوگوں سے سماجی و رواجی بدلاو پر بات کی جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ’ایں سعادت بزور بازو نیست‘ ۔ حالانکہ زورِبازو کی نہ ضرورت ہے اور نہ موقع۔ نوجوانوں کا سماجی بدلاو کا مطالبہ درجہ قبولیت پر تبھی پہنچے گا جب وہ بات کرنے کا حوصلہ پیدا کریں گے مدلل اور بر وقت بات کریں گے۔ایسی بات بالآخر مانی ہی جائے گی اور تبھی خرد غلامی سے آزاد ہو کر پیروں کا استاد ہو گا۔سماجی معاملات سے رواجی اقدار کا انخلااس جانب پہلاقدم ہوگا۔ اور یہ قدم بہت سے سفید پوشوں کا بھرم قایم رکھنے اور نشاة ثانیہ کا بھی باعث ہو گا۔ بس دیر ہے تو پڑھے لکھے سماج کے فرمانبرداروں کے نافرماں ہونے کی.

No comments:

Post a Comment