حکمران کا نام خادم مخدوم ہونا قطعاََ ضروری نہیں ہاں قوم کی خدمت اس کا فرض ہے۔ فرائض کی ادائیگی بوساطتِ جائز ہی اچھی لگتی ہے ناکہ ڈی آئی جی چوک میں کھڑا ہو کہ قوم کی مدد کر رہا ہو۔ میں شہباز شریف کے ترقیاتی کاموں کا معترف بھی ہوں اور نقاد بھی۔ بحیثیت وزیرِ اعلی' جناب کی کارکردگی بمقابلہِ ایرے غیرے بری نہیں لیکن وفاق کا غیر ضروری دباو دوسری اکائیوں پر آنا بھی مستحسن نہیں۔ دوسرے صوبوں کی پسماندگی کی قیمت پر پنجاب کی ترقی پاکستان کی خوشحالی کا باعث توہرگز نہیں ہو سکتی لیکن وفاقی زنجیر کی شکست و ریخت کا سبب لازمی ہوگی۔ اللہ ہر ذمہ دار کو اپنی ذمہ داریاں بطریقِ احسن انجام دینے کا شعور اور توفیق دے۔آمین
Friday, October 16, 2015
مستقبل میں سپر مارکیٹ سے خریداری کے ممکنہ طریقے
مستقبل میں سپر مارکیٹ سے خریداری کے ممکنہ طریقے
اگر ریفریجریٹر شاپنگ ٹرالی کو کہے کہ بھائی دودھ ختم ہو گیا ہے تو یہ کوئی مضحکہ خیز بات نہ ہوگی کیونکہ بیس برس بعد یہی کچھ ہو رہا ہو گا کیونکہ تب سپر مارکیٹس آج سے بہت بڑی اور مواصلاتی لحاظ سے نہایت فعال ہو چکی ہونگی۔ آج کہ بچے جو سمارٹ فون کو ہی کل کائنات سمجھ رہے ہیں وہ اس وقت بڑے صارفین کی صورت میں سامنے آئیں گے اور وہ پہلے ہی ذہنی طور پر اس تبدیلی کو قبول کر چکے ہونگے۔
ھمارا فوڈ سٹور اور ریفریجریٹر ہمیں بتائے گا کے کیا چیزختم ہونے کو ہے وہ ضرورت اور موسم کے لحاظ سے یہ تعین کرے گا کہ آیا مزید کتنا منگوانا سود مند ہو گا-
آن لائن خریداری زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہوگا اور زیادہ تر گروسری اور خشک راشن کے آرڈرز خود کار طریقے سے ہو جایا کریں گے تاہم تازہ سبزیوں اور پھلوں کے لئے مارکیٹ جانے کا رواج تب بھی ہو گا یا ہو سکتا ہے چند ممالک میں اس کے لئے ڈرون تیاروں کا استعمال بھی جاری ہو لیکن زیادہ تر ممالک میں لوگ خود اس مقصد کے لئے مارکیٹ جانا پسند کریں گے.
شاپنگ ٹرالیاں ھمارے موبائل فون سے مربوط ہو جایا کریں گی اور خریداری کے سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں مطلوبہ ریک تک لے جائیں گی اور موبایل فون بار کوڈ ریڈر ہونگے جو بار کوڈز کی مدد سے اشیا کے اجزائے ترکیبی اور حفظانِ صحت کی مطابقت کے بارہ میں تمام معلومات فراہم کردیں گے۔
کھانے کی زیادہ تر چیزیں تیار حالت میں میسر ہونگی یعنی ہم انگریڈئنٹس کم اور مِیل زیادہ خرید رہے ہونگے۔سب کچھ گھر لاکے' کچن صرف فائنل ٹچ کے لئے استعمال ہوا کریگا۔
سپر مارکیٹس میں کیشیرز کی جگہ شیفز لے لیں گے لیکن باقی کا سٹاف ان شیفز کی مدد کے لئے تھوڑے مختلف انداز سے کام کرتا رہے گا۔ بلات کی ادائیگی موبائل سویپنگ سے ہوگی اور کریڈٹ کارڈز کے جھنجھٹ سے چھٹکارہ مل چکا ہو گا۔ کام سب کر رہے ہونگے لیکن انداز اور زمہ داریاں بدل جائیں گی لیکن سکون تب بھی ناپید ہی ہو گا۔
سپر مارکیٹس میں بارز اور کیفے اب بھی ہیں لیکن تب دراصل سپر مارکیٹس ان بارز اور کیفیز کی وجہ سے چل رہی ہونگی سپر مارکیٹس کا مجموعی حجم ان لوازمات کی وجہ سے اور بڑھے گا۔
آج سے بیس برس بعد یہی کچھ ہو یا اس سے بھی بڑھ کہ ہو لیکن جو اکتاہٹ سپر مارکیٹس میں کام کے دوران ہوتی ہے اس کا ادراک میں صبح سے اب تک کر رہا ہوں۔ اتنی گہما گہمی اور تنوع کے باوجود یہاں سکون اور استراحتِ قلبی کا ایک پل بھی نصیب نہیں ہوتا شائد کہ اس کی وجہ بازار کا شیطان ہو۔ اب شام ہو چلی ہے تو چوتھا کلمہ پڑھ ہی لیا جائے: ( لَآ اِلٰہَ اِ لَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ یُحْحٖی وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ اَ بَدًا اَ بَدًا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَ ھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍقَدِیْرٌ) دیر آید ' درست آید---
نثری و شعری اثرات میں تغیر
نثری اثرات میں تغیر تو ایک مسلمہ حقیقت رہتا ہی ہے تآنکہ نثر نگار زبردستی ایجنڈے کا نفاذ کر دے لیکن جو زیادتی شاعری کی تشریحات میں شعر و شاعر دونوں سے ہوتی ہیں اس کا ازالہ روز قیامت شاعر کی براہ راست بخشش کے سوا اور کیا ہو سکے گا۔ میں نظم میں استعمال ہونے والے مشکل الفاظ کے مختلف کیفیات میں مطالب تک کی سلیس کو تو ہضم کر لیتا ہوں لیکن تشریح سے قے ہو جاتی ہے کیونکہ کیفیت طاری ہوئے بغیر شاعری سننے اور پڑھنے کو شاعر سے ادبی زیادتی سمجھتا ہوں۔ نثری مطالعہ میں بھی اگر ایسی ہی کیفیت طاری رہ سکے تو قاری کو نثر نگار سے بھی بڑے دور کی سوجھ سکتی ہے۔
ہائے ! ان فرمانبرداروں کا تابع فرماں رہنا
ہائے ! ان فرمانبرداروں کا تابع فرماں رہنا
ہمارے اعلیْ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ آمرانہ معاشرتی جمہور کے مقابلے کو سعی لاحاصل سمجھتے ہیں۔
بدلاو وسلجھاو کی فطری خواہش جو کہ دوران تعلیم مشاہدات اور تربیت سے پروان چڑھی ہوتی ہے اس کو عملی زندگی میں جب پورا کرنے کا
وقت آتا ہے تو اس وقت جمودی جمہور کے آگے ہتھیار ڈال دینے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے۔ اگر تعلیم انسان کو گونگا بنا رہی ہو تو ایسی تعلیم سے گنوار ہونا بدرجہا بہتر ہے کیونکہ بالآخر مواخذہ بھی تو بمطابقِ علم وعقل ہی ہونا ہے۔معاشرتی اور سماجی معاملات میں نوجوانوں کا مروجہ طریقہ کار میں اپنے بڑوں کی ہر حال میں اطاعت، فرمانبرداری
کا درجہ تو حاصل کر رہی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ فکری موت کا پیغام ہوتی ہے۔جب ان اعلیْ تعلیم یافتہ لوگوں سے سماجی و رواجی بدلاو پر بات کی جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ’ایں سعادت بزور بازو نیست‘ ۔ حالانکہ زورِبازو کی نہ ضرورت ہے اور نہ موقع۔ نوجوانوں کا سماجی بدلاو کا مطالبہ درجہ قبولیت پر تبھی پہنچے گا جب وہ بات کرنے کا حوصلہ پیدا کریں گے مدلل اور بر وقت بات کریں گے۔ایسی بات بالآخر مانی ہی جائے گی اور تبھی خرد غلامی سے آزاد ہو کر پیروں کا استاد ہو گا۔سماجی معاملات سے رواجی اقدار کا انخلااس جانب پہلاقدم ہوگا۔ اور یہ قدم بہت سے سفید پوشوں کا بھرم قایم رکھنے اور نشاة ثانیہ کا بھی باعث ہو گا۔ بس دیر ہے تو پڑھے لکھے سماج کے فرمانبرداروں کے نافرماں ہونے کی.
بدلاو وسلجھاو کی فطری خواہش جو کہ دوران تعلیم مشاہدات اور تربیت سے پروان چڑھی ہوتی ہے اس کو عملی زندگی میں جب پورا کرنے کا
وقت آتا ہے تو اس وقت جمودی جمہور کے آگے ہتھیار ڈال دینے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے۔ اگر تعلیم انسان کو گونگا بنا رہی ہو تو ایسی تعلیم سے گنوار ہونا بدرجہا بہتر ہے کیونکہ بالآخر مواخذہ بھی تو بمطابقِ علم وعقل ہی ہونا ہے۔معاشرتی اور سماجی معاملات میں نوجوانوں کا مروجہ طریقہ کار میں اپنے بڑوں کی ہر حال میں اطاعت، فرمانبرداری
کا درجہ تو حاصل کر رہی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ فکری موت کا پیغام ہوتی ہے۔جب ان اعلیْ تعلیم یافتہ لوگوں سے سماجی و رواجی بدلاو پر بات کی جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ’ایں سعادت بزور بازو نیست‘ ۔ حالانکہ زورِبازو کی نہ ضرورت ہے اور نہ موقع۔ نوجوانوں کا سماجی بدلاو کا مطالبہ درجہ قبولیت پر تبھی پہنچے گا جب وہ بات کرنے کا حوصلہ پیدا کریں گے مدلل اور بر وقت بات کریں گے۔ایسی بات بالآخر مانی ہی جائے گی اور تبھی خرد غلامی سے آزاد ہو کر پیروں کا استاد ہو گا۔سماجی معاملات سے رواجی اقدار کا انخلااس جانب پہلاقدم ہوگا۔ اور یہ قدم بہت سے سفید پوشوں کا بھرم قایم رکھنے اور نشاة ثانیہ کا بھی باعث ہو گا۔ بس دیر ہے تو پڑھے لکھے سماج کے فرمانبرداروں کے نافرماں ہونے کی.
Subscribe to:
Comments (Atom)