Monday, January 4, 2016

کچھ خاص مریض

بیمار ہونا کسی کو بھی پسند نہیں اور اگر کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہے گا کہ اسے کوئی بیماری لاحق ہو اور وہ غیر صحت مند زندگی گزارے، لیکن اگر کہا جائے کہ لوگ شوقیہ بیمار بھی ہوتے ہیں، تو کیوں آپ کو حیرت تو ہو گی نا! جی ہاں درست کہا، حیرت کی بات ہی ہے، لیکن اس سے بڑی دلچسب بات یہ ہے کہ معالجین کی یقین دہانیوں اور لیبارٹری ٹسٹ کی رپورٹوں کے باوجود ایسے لوگ خود کو صحت مند تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اب بتائیں آپ ایسے لوگوں کو کیا کہیں گے؟
جی ہاں ایسے لوگوں کو وہمی ہی کہیں گے اور معالجین نے بھی اس طرح کے شوقیہ عادی مریضوں کو ‘‘وہم کا مریض’’ کا لقب دے رکھا ہے۔ ایسے لوگ صحیح معنوں میں ہماری ہمدردی اور توجہ سے مستحق ہوتے ہیں اور ڈاکٹروں کا بھی یہ کہنا ہے کہ وہم کے مریض کو جھٹلائیں نہیں، بلکہ پیار و محبت کا رویہ رکھیں۔ اگر انہیں یہ یقین دلانے کی کوشش کی جائے کہ وہ بالکل صحت مند ہیں تو وہم کے مریض نفسیاتی امراض کا شکار ہو کر نہ صرف تنہائی پسند بلکہ دوسروں کا اپنا دشمن بھی سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ کے اردگرد بھی کوئی وہم کا مارا مریض موجود ہے تو یہ مضمون آپ کو اس خود ساختہ مریض کو دوبارہ معمول کی زندگی گزارنے کے راستے پر واپس لانے میں مدد کرے گا۔
ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ وہم کا علاج تو حضرتِ لقمانِ حکیم کے پاس بھی نہیں تھا۔ یہ صرف کہاوت ہی نہیں ایک بہت بڑی طبی حقیقت بھی ہے، جسے آج کے جدید طبی معالجین یعنی کہ ایلوپیتھک ڈاکٹر بھی تسلیم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سارے لوگ جو جسمانی طور پر صحت مند ہوتے ہیں لیکن خود کو صرف اس لیے صحت مند تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ انہوں نے از خود یہ تصور قائم کر رکھا ہوتا ہے کہ وہ بیمار ہیں اور اس تصور کے سہارے وہ خود کو مختلف امراض کا شکار سمجھ کر معالجین کے کلینکوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ چونکہ انہیں کوئی بیماری تو ہوتی نہیں لہٰذا ایسے ‘‘تصوراتی بیمار’’ افاقہ نہ ہونے کے الزامات لگا کر آئے دن معالجین بھی بدلتے رہتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو خوش و خرم گزارنے کے بجائے خود ساختہ بیماریوں کی بھینٹ چڑھاتے رہتے ہیں۔
اہل خانہ اس کی بیماری کو تصوراتی جاننے کے باوجود اس کے وجود پر اعتبار کر لینے کی یقین دہانی کرائیں اور پھر جب معالج اس کا علاج کرنا شروع کرے تو تو وہم کے مریض کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کریں کہ علاج سے ظاہری طور پر اس کی حالت میں بڑی مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ایسے مریض کو تنقید اور اس کے وہم کو جھٹلانے کے بجائے پیارو محبت سے کام لے کر اس سے ہمدردی دکھائی جائے تو وہ جلد اپنی اس حالت سے چھٹکارا پا سکتا ہے، ورنہ پھر نفسیاتی مسائل کا شکار بن کر اپنی زندگی کو تباہ و برباد کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ بنیادی علاج صرف ایک ہی ہے، وہم کے مریض کو توجہ دینا، اس سے پیار و محبت اور ہمدردانہ رویہ۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ علاج روا ہے تو واہمے کے مریض کو عملی زندگی کی جانب دوبارہ واپس لایا جا سکتا ہے۔
                                مخاطب کا مضمون نگا ر کی رائے سے متفق ہونا ضروری ہے       (بٹلینڈرز)

Friday, December 4, 2015

ایک بہت ہی بہتریں سلجھے ھوئے سمجھدار اور پیشہ ورانہ طور پر ایک ذمہ دار دوست کا مسیج آیا..... جو واقعاتی طور پر ھمارے معاشرے سے جڑے کچھ عوامل پر تنقید اور امید کا پیش خیمہ ھے..... ذرہ پڑھیے تو:::::
****ہائے ! ان فرمانبرداروں کا تابع فرماں رہنا****
ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ بدلاو وسلجھاو کی فطری خواہش جو کہ دوران تعلیم مشاہدات اور تربیت سے ان کی شخصیت میں پروان چڑھی رہی ہوتی ہیں.... اور عملی وقت کیلیے بڑے بڑے قومی خدمت و معاشرتی بھلائی کے دعوے کرتے رھتے ھیں 
جیسے ڈاکٹرز انجنئرز پروفیسرز لایرز سول سروسز میں جانے کے خواھشمند جب عملی زندگی میں اپنے پسندیدہ پیشے کو اختیار کرتے ھیں تو ان کے وعدے اور دعو ے دھرے کے دھرے رہ جاتے ھیں...وہ اس وقت جمودی قوت کے آگے ہتھیار ڈال دینے میں ہی عافیت سمجھتے   ہیں ۔ بلکہ اس سڑاند کے ماحول میں خود کو مدغم کرلیتے ھیں...
تو کیا ان کی تعلیم جس سے ان کو طاقت حاصل کر کے معاشرتی مسائل کو کم کرکے اپنے ان دعووں کو سچ کا پانی دینا تھا، ان کو گونگا نہیں بنا رہی ہوتی
ایسی تعلیم سے گنوار بدرجہا بہتر ہے کیونکہ وہ صلاحیت کو اپنی بساط کے مطابق استعمال تو کرتے ھیں....
اور ھاں یاد رکھیں مواخذہ بھی تو بمطابقِ علم وعقل ہی ہونا ہے۔
معاشرتی اور سماجی معاملات میں نوجوانوں کا مروجہ طریقہ کار میں اپنے بڑوں کی ہر حال میں اطاعت، بظاہر
فرمانبرداری
کا درجہ تو حاصل کر رہی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ فکری موت کا پیغام ہے۔
جب ان اعلیْ تعلیم یافتہ لوگوں سے سماجی و رواجی بدلاؤ پر بات کی جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ
’ایں سعادت بزور بازو نیست‘ ۔
حالانکہ زورِبازو کی نہ ضرورت ہے اور نہ موقع---- - -
نوجوانوں کا سماجی بدلاو کا مطالبہ درجہ قبولیت پر تبھی پہنچے گا جب وہ بات کرنے کا حوصلہ پیدا کریں گے مدلل اور بر وقت بات کریں گے۔ایسی بات بالآخر مانی ہی جائے گی ......
اور تبھی خود وایتی غلامی سے آزاد ہو کر سماجی معاملات سے رواجی اقدار کا انخلا اس جانب پہلاقدم ہوگا اور یہ قدم بہت سے سفید پوشوں کا بھرم قائم رکھنے اور نشاة ثانیہ کا بھی باعث بھی ہو گا۔
بس دیر ہے تو اس سماج کے پڑھے لکھے enthusiastic and optimistic فرمانبرداروں کے نافرماں ہونے کی! جس میں کسی بھی بڑے کے سامنے غیرقانونی عمل سے مدفعانہ "نہ" کرنے کی......
بشکریہ ‫#‏فرجادحکیم‬

Monday, November 30, 2015

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو مخلص وجدانیوں سے ملاقات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
........................لیاقت حسین بھائی اور راجا مبشر ممتاز.....................
فیس بک کی پروفائل پکچر دیکھ کر کسی کے اصل خدوخال کا یقین کر لینا کوئی معقول بات نہیں کیونکہ جب ان ان تصویروں کے پیچھے چھپے اصل چہرے بے نقاب ہوتے ہیں تو انسان جس شدید ذہنی صدمے سے دوچار ہوتا ہے وہ پھراصل شناختی کارڈ دیکھ کہ بھی دور نہیں ہوتا اعتماد جو اٹھ گیا ہوتا ہے اب اعتماد کی بحالی ان چوک چوراہوں کی رکھوالی میں شناخت ظاہر کرنے سے بھی مشروط نہیں۔لیکن اب کی بار ایسا بالکل نہیں ہوا جیسا عکسی ویسا شخصی اور وہ بھی دو دو ۔ فیس بک پر میری رفاقت ان دونوں احباب سے زیادہ پرانی نہیں لیکن شناسائی ایسی بڑھی کہ ملنے پر لگا کہ شاید "زندہ رہنے کےلئے تیری قسم ایک ملاقات ضروری تھی صنم" پچھلے کافی عرصہ سے میرا یہ معمول ہے کہ جب بھی اپنے شہر میں آوں تو کسی نہ کسی ایسے دوست سے ملاقات ضرور کرتا ہوں جس سے تعلق سوشل میڈیا کی وساطت سے بنا ہواور بالمشافہ ملاقات کبھی نصیب نہ ہوئی ہواب کی بار دو ایسے وجدانی دوستوں سے علٰحدہ علٰحدہ ملاقات ہوئی جن میں ہٹ کہ سوچنے کا کامن کیریکٹر ہے۔ لیاقت حسین بھائی کا تعلق کومیکوٹ سے ہے اور حال میں وہ ڈگری کا لچ چناری میں چناری کی کریم(بقول ان کے)کوکیمیا گری کے
اصول سکھاتے ہیں۔ان سے ملاقات کا وقت لینا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مصروفیات جو اتنی ہیں موصوف کی لیکن پھر بھی کمال فراخدلی سے اپنے قیمتی وقت میں سے بھی بہت
سا مجھے عنایت کیا۔ مظفرآباد میں شام کے وقت چائے خانے میں بیٹھنے کا ایک نیا کلچر پروان چڑھ رہا ہے اور اس خوش کن رواج کی تکمیل میں ڈرائیونگ ڈسٹنس پر واقع اصغر آباد کے انتہائی آباد چائے خانے کی طرف لیاقت بھائی کی اپنی گاڑی پر چل پڑے۔ میں سننے کے پر جبر فن کی آبیاری کروانے کو پہلے ہی تیا تھا اور وہ آبیاری کرنے کو۔ میں سنتا گیا وہ سناتےگئےاور احساس ہوتا گیا کہ موصوف اپنی پروفائل پکچر جیسے خیالات ہی رکھتے ہیں اور ہمارا شہر بانجھ نہیں لیکن ایسا پنجرہ ہے جس کی چابی ہر ایک کا اپنا فنگر پرنٹ ہے لیکن لوگ ہاتھ دھو کرپیچھے نہیں پڑتے کہ پرنٹس واضح ہوں سیکیننگ کامیاب ہو اوریہ اپنی سوچ کا قفس ٹوٹے ۔لیاقت بھائی ادبی ذوق رکھنے والے انتہائی وجیہ اور خوبصورت آدمی ہیں زمانہ طالب علمی میں اپنے اس شوق کی تکمیل غالباَ کر چکے ہیں اس لئے اب جناب کا خاص میدان تعلیمی اصلاحات ہیں اور اس کے لئے کریٹو آئیڈیاز ان پر الہامی کیفیت طاری رکھتے ہیں ۔ تعلیمی نظام کی زبوں حالی کا درد ان کی باتوں اور نہ تھمنے والی آہ وبکا سے نہ ماننے والا بھی سوچنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ تعلیمی اصلاحات پر ان کے خیالات سننے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بے ضمیر افسر شاہی کی قائم علی شاہی نیند بھنگ کا شاخسانہ لگتی ہے۔ دوسری سب سے اہم بات موصوف کا نسلی اور علاقائی عصبیت سے مکمل اجتناب اور حق بات کی پرزور وکالت ہے ۔ویسے اگر وہ وکیل ہوتے تو چوٹی کہ ہوتےجج مجبوراَ انھی کے حق میں فیصلہ دیتا دلیل اتنی وزنی جو لاتے ہیں اور وہ بھی آستینیں چڑھا کہ۔ فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں انتہائی ایماندار اور چست ہیں تبھی پچاس کلو میٹر دور ہفتے کے پانچوں دن پہنچے ہوتے ہیں جبکہ تھکا وٹ کی وجہ سے چھٹےدن عام طور پر چھٹی کرتے ہیں تاکہ ساتویں دن کی چھٹی انجوائے کر سکیں۔ "وہ کہیں اور سنا کرے کوئی"کے لئے دردِ دل رکھنے والے احباب ان کی مجلس سے فیض یاب ہونے کے لئے وقت لازمی لیں جبکہ مستورات اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔نمازِ مغرب کا وقت اتنا کم کیوں ہوتا ہے ورنہ ابھی اور بیٹھتے اور سنتے اور سیکھتے اور گھومتے لیکن جو رضا رب کی کہ بھائی جناب راجا مبشر ممتاز سے وقت بھی جو لیا ہوا تھا۔تو لیاقت بھائی سے اجازت لی اب شاید وہ بھی تھک چکے تھے اس لئے یہ اجازت بھی بڑی فراخدلی سے دی اور ہارن بجا کہ رخصت کیا۔
نماز کی ادائیگی کے بعد مبشر ممتاز کی جانب بعد بے تار برقی رابطے کے انکل کی بائک پر نکل پڑے بائک کیا تھی ایک ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی جو سٹارٹ ہوتے ہی سلگ پڑی لیکن میں کان بند کر کہ باقی لوگوں کی صلواتوں میں روانہ ہوا۔ مبشر بھائی سے ملاقات سہیلی سرکار دربار کے میں گیٹ پر ہوئی جو وہاں پہلے ہی دعاوں میں مشغول کھڑے تھے۔ بائک نے ان کو دور سے ہی اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا ۔ ان کی دعاوں میں جو خلل پڑا تو میں شرمندہ تو ہوا لیکن معذرت نہ کی کیونکہ وقت قبولیت کا لگ ہی نہ رہا تھا اگر ہوتا تو شائد گزرے لوگ مجھے درباری پل سے نیچے پہنچا چکے ہوتے۔ پرتپاک انداز سے ملےحالانکہ طبیعت مضمحل تھی اور اسلام آباد سے سفر کر کے بھی آئے تھے۔خوبصورت سراپا ہلکی داڑھی اور گفتار میں دھیما پن ۔تو طے پایا کہ کشمیری چائے پہلے ہو جائے۔ چھوٹتے ہی پہنچ گئےاور جناب نے چپس اور چائے کا آرڈر دے مارا۔ ان کی فیس بک ٹائم لائن سے بڑھ کہ ادبی اور علمی ذوق کا ادراک آرڈر دینے کے انداز سے ہی ہو گیا تھا تو ہم بھی ذرا دبک کے بیٹھ گئے کہ ایک اور جبر مسلسل سے گزرتے ہیں۔ فی الحال فارغ البال (سر کے بال بھی جس کی طرف موصوف نے خود توجہ دلائی)لیکن بذلہ سنجی اپنے عروج پر ہے۔ ادبی میدان سے خاص شغف ہے ناول اور عام علوم کی کتب چاٹ چکے ہیں ۔ فنانس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ابھی اسلام آباد سے سٹیٹ بنک کا ایک انٹرویو دے کے پہنچے تھے۔ انٹرویو میں کامیابی کی دعا مجھ سے کروانا چاہتے تھے جسے میں نے وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کسی قبولیت کے وقت پر اٹھا رکھا(آپ سب احباب سے ان کی اس انٹرویو،مکمل صحت یابی اور باقی امور میں بھی کامیابی کی پر خلوص دعا کی استدعا ہے)۔بے روزگاری نے انھیں مایوس نہیں ہونے دیا لیکن صحت کی خرابی نے جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ادب، فلسفہ اور معاشرتی اصلاح ان کے خاص میدانِ عمل محسوس ہوئے اور انھی امور پر ان سے سننا شروع کیا۔ وہ جاری ہوئے تو لگا کہ علم کا ایک عرفان جاری ہے بات کاٹنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا میں بھی رخ پیالی کی طرف کئے ہمہ تن گوش تھا کہ ان کا رخ بدلا اور سامنے بیٹھے چند من چلے نوجوانوں کی طرف توجہ دلا کہ کچھ دن پرانی بات یاد دلا کہ لاجواب کر دیا حالانکہ میں پہلے ہی بول نہیں پارہا تھا توجہ پھر پیالی کی طرف کر دی اور اپنی ہار مان کے اثبات میں سر ہلا دیا۔کرکٹ کے بھی شیدائی ہیں اور خود بھی اچھے کھلاڑی ہیں لیکن آج کا میچ دیکھنے کا شوق نہیں رکھتےاس کی وجہ دوسرے میچ کی باعزت ہار ہے۔ چائے کے بعد بائک جاکے ان کے گھر کے سامنے پارک کی تاکہ اس علاقے کے لوگوں سے بھی ایصالِ ثواب کرا لوں اور ان کے پر زور اصرار کے باوجود ان کے دولت خانہ کے بجائے چند قدم پیدل چلنا منظور ٹھہرا۔ سنسان تاریک سی کٹی پھٹی سڑک لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ بے مقصد نہیں چل رہے یہاں ان کے مزاح اور علمی استدلال کی پختگی کا احساس شدید تر ہوتا گیا اور اپنی کوتاہ علمی آنے والی شکستہ سڑک سے بھی زیادہ کوتاہ کامت محسوس ہوئی۔ آگے رستہ مسدود اور گھر بھی دریا برد تھے تو واپس پلٹے اور مبشر بھائی شاید اس سے آگے جانا بھی نہ چاہ رہے تھے۔ اپنے اس علاقے کا حدود اربعہ کو بھی خوب جانتے ہیں بازو سے پکڑ کہ ہوش نہ دلاتے تو گھر والے جناب فرجاد کی دریا میں تلاش کو ہرکارے دوڑا رہے ہوتے۔ مبشر بھائی شعری زوق بھی رکھتے ہیں اور خود بھی شعر موزوں کرتے ہیں لیکن شعری نشست اگلی ملاقات پر اٹھا رکھی کہ یار زندہ صحبت باقی لیکن وہ شائد میرے زندہ بچے رہنے پر زیادہ پر امید نہ لگ رہے تھے! پتہ نہیں کیوں؟

Friday, October 16, 2015

حکمران کا نام خادم مخدوم ہونا قطعاََ ضروری نہیں ہاں قوم کی خدمت اس کا فرض ہے۔ فرائض کی ادائیگی بوساطتِ جائز ہی اچھی لگتی ہے ناکہ ڈی آئی جی چوک میں کھڑا ہو کہ قوم کی مدد کر رہا ہو۔ میں شہباز شریف کے ترقیاتی کاموں کا معترف بھی ہوں اور نقاد بھی۔ بحیثیت وزیرِ اعلی' جناب کی کارکردگی بمقابلہِ ایرے غیرے بری نہیں لیکن وفاق کا غیر ضروری دباو دوسری اکائیوں پر آنا بھی مستحسن نہیں۔ دوسرے صوبوں کی پسماندگی کی قیمت پر پنجاب کی ترقی پاکستان کی خوشحالی کا باعث توہرگز نہیں ہو سکتی لیکن وفاقی زنجیر کی شکست و ریخت کا سبب لازمی ہوگی۔ اللہ ہر ذمہ دار کو اپنی ذمہ داریاں بطریقِ احسن انجام دینے کا شعور اور توفیق دے۔آمین

مستقبل میں سپر مارکیٹ سے خریداری کے ممکنہ طریقے


مستقبل میں سپر مارکیٹ سے خریداری کے ممکنہ طریقے
اگر ریفریجریٹر شاپنگ ٹرالی کو کہے کہ بھائی دودھ ختم ہو گیا ہے تو یہ کوئی مضحکہ خیز بات نہ ہوگی کیونکہ بیس برس بعد یہی کچھ ہو رہا ہو گا کیونکہ تب سپر مارکیٹس آج سے بہت بڑی اور مواصلاتی لحاظ سے نہایت فعال ہو چکی ہونگی۔ آج کہ بچے جو سمارٹ فون کو ہی کل کائنات سمجھ رہے ہیں وہ اس وقت بڑے صارفین کی صورت میں سامنے آئیں گے اور وہ پہلے ہی ذہنی طور پر اس تبدیلی کو قبول کر چکے ہونگے۔
ھمارا فوڈ سٹور اور ریفریجریٹر ہمیں بتائے گا کے کیا چیزختم ہونے کو ہے وہ ضرورت اور موسم کے لحاظ سے یہ تعین کرے گا کہ آیا مزید کتنا منگوانا سود مند ہو گا-
آن لائن خریداری زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہوگا اور زیادہ تر گروسری اور خشک راشن کے آرڈرز خود کار طریقے سے ہو جایا کریں گے تاہم تازہ سبزیوں اور پھلوں کے لئے مارکیٹ جانے کا رواج تب بھی ہو گا یا ہو سکتا ہے چند ممالک میں اس کے لئے ڈرون تیاروں کا استعمال بھی جاری ہو لیکن زیادہ تر ممالک میں لوگ خود اس مقصد کے لئے مارکیٹ جانا پسند کریں گے.
شاپنگ ٹرالیاں ھمارے موبائل فون سے مربوط ہو جایا کریں گی اور خریداری کے سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں مطلوبہ ریک تک لے جائیں گی اور موبایل فون بار کوڈ ریڈر ہونگے جو بار کوڈز کی مدد سے اشیا کے اجزائے ترکیبی اور حفظانِ صحت کی مطابقت کے بارہ میں تمام معلومات فراہم کردیں گے۔
کھانے کی زیادہ تر چیزیں تیار حالت میں میسر ہونگی یعنی ہم انگریڈئنٹس کم اور مِیل زیادہ خرید رہے ہونگے۔سب کچھ گھر لاکے' کچن صرف فائنل ٹچ کے لئے استعمال ہوا کریگا۔
سپر مارکیٹس میں کیشیرز کی جگہ شیفز لے لیں گے لیکن باقی کا سٹاف ان شیفز کی مدد کے لئے تھوڑے مختلف انداز سے کام کرتا رہے گا۔ بلات کی ادائیگی موبائل سویپنگ سے ہوگی اور کریڈٹ کارڈز کے جھنجھٹ سے چھٹکارہ مل چکا ہو گا۔ کام سب کر رہے ہونگے لیکن انداز اور زمہ داریاں بدل جائیں گی لیکن سکون تب بھی ناپید ہی ہو گا۔
سپر مارکیٹس میں بارز اور کیفے اب بھی ہیں لیکن تب دراصل سپر مارکیٹس ان بارز اور کیفیز کی وجہ سے چل رہی ہونگی سپر مارکیٹس کا مجموعی حجم ان لوازمات کی وجہ سے اور بڑھے گا۔
آج سے بیس برس بعد یہی کچھ ہو یا اس سے بھی بڑھ کہ ہو لیکن جو اکتاہٹ سپر مارکیٹس میں کام کے دوران ہوتی ہے اس کا ادراک میں صبح سے اب تک کر رہا ہوں۔ اتنی گہما گہمی اور تنوع کے باوجود یہاں سکون اور استراحتِ قلبی کا ایک پل بھی نصیب نہیں ہوتا شائد کہ اس کی وجہ بازار کا شیطان ہو۔ اب شام ہو چلی ہے تو چوتھا کلمہ پڑھ ہی لیا جائے: ( لَآ اِلٰہَ اِ لَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ یُحْحٖی وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ اَ بَدًا اَ بَدًا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَ ھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍقَدِیْرٌ) دیر آید ' درست آید---

نثری و شعری اثرات میں تغیر

نثری اثرات میں تغیر تو ایک مسلمہ حقیقت رہتا ہی ہے تآنکہ نثر نگار زبردستی ایجنڈے کا نفاذ کر دے لیکن جو زیادتی شاعری کی تشریحات میں شعر و شاعر دونوں سے ہوتی ہیں اس کا ازالہ روز قیامت شاعر کی براہ راست بخشش کے سوا اور کیا ہو سکے گا۔ میں نظم میں استعمال ہونے والے مشکل الفاظ کے مختلف کیفیات میں مطالب تک کی سلیس کو تو ہضم کر لیتا ہوں لیکن تشریح سے قے ہو جاتی ہے کیونکہ کیفیت طاری ہوئے بغیر شاعری سننے اور پڑھنے کو شاعر سے ادبی زیادتی سمجھتا ہوں۔ نثری مطالعہ میں بھی اگر ایسی ہی کیفیت طاری رہ سکے تو قاری کو نثر نگار سے بھی بڑے دور کی سوجھ سکتی ہے۔

ہائے ! ان فرمانبرداروں کا تابع فرماں رہنا

ہائے ! ان فرمانبرداروں کا تابع فرماں رہنا
ہمارے اعلیْ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ آمرانہ معاشرتی جمہور کے مقابلے کو سعی لاحاصل سمجھتے ہیں۔
بدلاو وسلجھاو کی فطری خواہش جو کہ دوران تعلیم مشاہدات اور تربیت سے پروان چڑھی ہوتی ہے اس کو عملی زندگی میں جب پورا کرنے کا
وقت آتا ہے تو اس وقت جمودی جمہور کے آگے ہتھیار ڈال دینے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے۔ اگر تعلیم انسان کو گونگا بنا رہی ہو تو ایسی تعلیم سے گنوار ہونا بدرجہا بہتر ہے کیونکہ بالآخر مواخذہ بھی تو بمطابقِ علم وعقل ہی ہونا ہے۔معاشرتی اور سماجی معاملات میں نوجوانوں کا مروجہ طریقہ کار میں اپنے بڑوں کی ہر حال میں اطاعت، فرمانبرداری
کا درجہ تو حاصل کر رہی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ فکری موت کا پیغام ہوتی ہے۔جب ان اعلیْ تعلیم یافتہ لوگوں سے سماجی و رواجی بدلاو پر بات کی جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ’ایں سعادت بزور بازو نیست‘ ۔ حالانکہ زورِبازو کی نہ ضرورت ہے اور نہ موقع۔ نوجوانوں کا سماجی بدلاو کا مطالبہ درجہ قبولیت پر تبھی پہنچے گا جب وہ بات کرنے کا حوصلہ پیدا کریں گے مدلل اور بر وقت بات کریں گے۔ایسی بات بالآخر مانی ہی جائے گی اور تبھی خرد غلامی سے آزاد ہو کر پیروں کا استاد ہو گا۔سماجی معاملات سے رواجی اقدار کا انخلااس جانب پہلاقدم ہوگا۔ اور یہ قدم بہت سے سفید پوشوں کا بھرم قایم رکھنے اور نشاة ثانیہ کا بھی باعث ہو گا۔ بس دیر ہے تو پڑھے لکھے سماج کے فرمانبرداروں کے نافرماں ہونے کی.