Friday, December 4, 2015

ایک بہت ہی بہتریں سلجھے ھوئے سمجھدار اور پیشہ ورانہ طور پر ایک ذمہ دار دوست کا مسیج آیا..... جو واقعاتی طور پر ھمارے معاشرے سے جڑے کچھ عوامل پر تنقید اور امید کا پیش خیمہ ھے..... ذرہ پڑھیے تو:::::
****ہائے ! ان فرمانبرداروں کا تابع فرماں رہنا****
ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ بدلاو وسلجھاو کی فطری خواہش جو کہ دوران تعلیم مشاہدات اور تربیت سے ان کی شخصیت میں پروان چڑھی رہی ہوتی ہیں.... اور عملی وقت کیلیے بڑے بڑے قومی خدمت و معاشرتی بھلائی کے دعوے کرتے رھتے ھیں 
جیسے ڈاکٹرز انجنئرز پروفیسرز لایرز سول سروسز میں جانے کے خواھشمند جب عملی زندگی میں اپنے پسندیدہ پیشے کو اختیار کرتے ھیں تو ان کے وعدے اور دعو ے دھرے کے دھرے رہ جاتے ھیں...وہ اس وقت جمودی قوت کے آگے ہتھیار ڈال دینے میں ہی عافیت سمجھتے   ہیں ۔ بلکہ اس سڑاند کے ماحول میں خود کو مدغم کرلیتے ھیں...
تو کیا ان کی تعلیم جس سے ان کو طاقت حاصل کر کے معاشرتی مسائل کو کم کرکے اپنے ان دعووں کو سچ کا پانی دینا تھا، ان کو گونگا نہیں بنا رہی ہوتی
ایسی تعلیم سے گنوار بدرجہا بہتر ہے کیونکہ وہ صلاحیت کو اپنی بساط کے مطابق استعمال تو کرتے ھیں....
اور ھاں یاد رکھیں مواخذہ بھی تو بمطابقِ علم وعقل ہی ہونا ہے۔
معاشرتی اور سماجی معاملات میں نوجوانوں کا مروجہ طریقہ کار میں اپنے بڑوں کی ہر حال میں اطاعت، بظاہر
فرمانبرداری
کا درجہ تو حاصل کر رہی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ فکری موت کا پیغام ہے۔
جب ان اعلیْ تعلیم یافتہ لوگوں سے سماجی و رواجی بدلاؤ پر بات کی جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ
’ایں سعادت بزور بازو نیست‘ ۔
حالانکہ زورِبازو کی نہ ضرورت ہے اور نہ موقع---- - -
نوجوانوں کا سماجی بدلاو کا مطالبہ درجہ قبولیت پر تبھی پہنچے گا جب وہ بات کرنے کا حوصلہ پیدا کریں گے مدلل اور بر وقت بات کریں گے۔ایسی بات بالآخر مانی ہی جائے گی ......
اور تبھی خود وایتی غلامی سے آزاد ہو کر سماجی معاملات سے رواجی اقدار کا انخلا اس جانب پہلاقدم ہوگا اور یہ قدم بہت سے سفید پوشوں کا بھرم قائم رکھنے اور نشاة ثانیہ کا بھی باعث بھی ہو گا۔
بس دیر ہے تو اس سماج کے پڑھے لکھے enthusiastic and optimistic فرمانبرداروں کے نافرماں ہونے کی! جس میں کسی بھی بڑے کے سامنے غیرقانونی عمل سے مدفعانہ "نہ" کرنے کی......
بشکریہ ‫#‏فرجادحکیم‬