Monday, November 30, 2015

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو مخلص وجدانیوں سے ملاقات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
........................لیاقت حسین بھائی اور راجا مبشر ممتاز.....................
فیس بک کی پروفائل پکچر دیکھ کر کسی کے اصل خدوخال کا یقین کر لینا کوئی معقول بات نہیں کیونکہ جب ان ان تصویروں کے پیچھے چھپے اصل چہرے بے نقاب ہوتے ہیں تو انسان جس شدید ذہنی صدمے سے دوچار ہوتا ہے وہ پھراصل شناختی کارڈ دیکھ کہ بھی دور نہیں ہوتا اعتماد جو اٹھ گیا ہوتا ہے اب اعتماد کی بحالی ان چوک چوراہوں کی رکھوالی میں شناخت ظاہر کرنے سے بھی مشروط نہیں۔لیکن اب کی بار ایسا بالکل نہیں ہوا جیسا عکسی ویسا شخصی اور وہ بھی دو دو ۔ فیس بک پر میری رفاقت ان دونوں احباب سے زیادہ پرانی نہیں لیکن شناسائی ایسی بڑھی کہ ملنے پر لگا کہ شاید "زندہ رہنے کےلئے تیری قسم ایک ملاقات ضروری تھی صنم" پچھلے کافی عرصہ سے میرا یہ معمول ہے کہ جب بھی اپنے شہر میں آوں تو کسی نہ کسی ایسے دوست سے ملاقات ضرور کرتا ہوں جس سے تعلق سوشل میڈیا کی وساطت سے بنا ہواور بالمشافہ ملاقات کبھی نصیب نہ ہوئی ہواب کی بار دو ایسے وجدانی دوستوں سے علٰحدہ علٰحدہ ملاقات ہوئی جن میں ہٹ کہ سوچنے کا کامن کیریکٹر ہے۔ لیاقت حسین بھائی کا تعلق کومیکوٹ سے ہے اور حال میں وہ ڈگری کا لچ چناری میں چناری کی کریم(بقول ان کے)کوکیمیا گری کے
اصول سکھاتے ہیں۔ان سے ملاقات کا وقت لینا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مصروفیات جو اتنی ہیں موصوف کی لیکن پھر بھی کمال فراخدلی سے اپنے قیمتی وقت میں سے بھی بہت
سا مجھے عنایت کیا۔ مظفرآباد میں شام کے وقت چائے خانے میں بیٹھنے کا ایک نیا کلچر پروان چڑھ رہا ہے اور اس خوش کن رواج کی تکمیل میں ڈرائیونگ ڈسٹنس پر واقع اصغر آباد کے انتہائی آباد چائے خانے کی طرف لیاقت بھائی کی اپنی گاڑی پر چل پڑے۔ میں سننے کے پر جبر فن کی آبیاری کروانے کو پہلے ہی تیا تھا اور وہ آبیاری کرنے کو۔ میں سنتا گیا وہ سناتےگئےاور احساس ہوتا گیا کہ موصوف اپنی پروفائل پکچر جیسے خیالات ہی رکھتے ہیں اور ہمارا شہر بانجھ نہیں لیکن ایسا پنجرہ ہے جس کی چابی ہر ایک کا اپنا فنگر پرنٹ ہے لیکن لوگ ہاتھ دھو کرپیچھے نہیں پڑتے کہ پرنٹس واضح ہوں سیکیننگ کامیاب ہو اوریہ اپنی سوچ کا قفس ٹوٹے ۔لیاقت بھائی ادبی ذوق رکھنے والے انتہائی وجیہ اور خوبصورت آدمی ہیں زمانہ طالب علمی میں اپنے اس شوق کی تکمیل غالباَ کر چکے ہیں اس لئے اب جناب کا خاص میدان تعلیمی اصلاحات ہیں اور اس کے لئے کریٹو آئیڈیاز ان پر الہامی کیفیت طاری رکھتے ہیں ۔ تعلیمی نظام کی زبوں حالی کا درد ان کی باتوں اور نہ تھمنے والی آہ وبکا سے نہ ماننے والا بھی سوچنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ تعلیمی اصلاحات پر ان کے خیالات سننے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بے ضمیر افسر شاہی کی قائم علی شاہی نیند بھنگ کا شاخسانہ لگتی ہے۔ دوسری سب سے اہم بات موصوف کا نسلی اور علاقائی عصبیت سے مکمل اجتناب اور حق بات کی پرزور وکالت ہے ۔ویسے اگر وہ وکیل ہوتے تو چوٹی کہ ہوتےجج مجبوراَ انھی کے حق میں فیصلہ دیتا دلیل اتنی وزنی جو لاتے ہیں اور وہ بھی آستینیں چڑھا کہ۔ فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں انتہائی ایماندار اور چست ہیں تبھی پچاس کلو میٹر دور ہفتے کے پانچوں دن پہنچے ہوتے ہیں جبکہ تھکا وٹ کی وجہ سے چھٹےدن عام طور پر چھٹی کرتے ہیں تاکہ ساتویں دن کی چھٹی انجوائے کر سکیں۔ "وہ کہیں اور سنا کرے کوئی"کے لئے دردِ دل رکھنے والے احباب ان کی مجلس سے فیض یاب ہونے کے لئے وقت لازمی لیں جبکہ مستورات اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔نمازِ مغرب کا وقت اتنا کم کیوں ہوتا ہے ورنہ ابھی اور بیٹھتے اور سنتے اور سیکھتے اور گھومتے لیکن جو رضا رب کی کہ بھائی جناب راجا مبشر ممتاز سے وقت بھی جو لیا ہوا تھا۔تو لیاقت بھائی سے اجازت لی اب شاید وہ بھی تھک چکے تھے اس لئے یہ اجازت بھی بڑی فراخدلی سے دی اور ہارن بجا کہ رخصت کیا۔
نماز کی ادائیگی کے بعد مبشر ممتاز کی جانب بعد بے تار برقی رابطے کے انکل کی بائک پر نکل پڑے بائک کیا تھی ایک ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی جو سٹارٹ ہوتے ہی سلگ پڑی لیکن میں کان بند کر کہ باقی لوگوں کی صلواتوں میں روانہ ہوا۔ مبشر بھائی سے ملاقات سہیلی سرکار دربار کے میں گیٹ پر ہوئی جو وہاں پہلے ہی دعاوں میں مشغول کھڑے تھے۔ بائک نے ان کو دور سے ہی اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا ۔ ان کی دعاوں میں جو خلل پڑا تو میں شرمندہ تو ہوا لیکن معذرت نہ کی کیونکہ وقت قبولیت کا لگ ہی نہ رہا تھا اگر ہوتا تو شائد گزرے لوگ مجھے درباری پل سے نیچے پہنچا چکے ہوتے۔ پرتپاک انداز سے ملےحالانکہ طبیعت مضمحل تھی اور اسلام آباد سے سفر کر کے بھی آئے تھے۔خوبصورت سراپا ہلکی داڑھی اور گفتار میں دھیما پن ۔تو طے پایا کہ کشمیری چائے پہلے ہو جائے۔ چھوٹتے ہی پہنچ گئےاور جناب نے چپس اور چائے کا آرڈر دے مارا۔ ان کی فیس بک ٹائم لائن سے بڑھ کہ ادبی اور علمی ذوق کا ادراک آرڈر دینے کے انداز سے ہی ہو گیا تھا تو ہم بھی ذرا دبک کے بیٹھ گئے کہ ایک اور جبر مسلسل سے گزرتے ہیں۔ فی الحال فارغ البال (سر کے بال بھی جس کی طرف موصوف نے خود توجہ دلائی)لیکن بذلہ سنجی اپنے عروج پر ہے۔ ادبی میدان سے خاص شغف ہے ناول اور عام علوم کی کتب چاٹ چکے ہیں ۔ فنانس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ابھی اسلام آباد سے سٹیٹ بنک کا ایک انٹرویو دے کے پہنچے تھے۔ انٹرویو میں کامیابی کی دعا مجھ سے کروانا چاہتے تھے جسے میں نے وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کسی قبولیت کے وقت پر اٹھا رکھا(آپ سب احباب سے ان کی اس انٹرویو،مکمل صحت یابی اور باقی امور میں بھی کامیابی کی پر خلوص دعا کی استدعا ہے)۔بے روزگاری نے انھیں مایوس نہیں ہونے دیا لیکن صحت کی خرابی نے جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ادب، فلسفہ اور معاشرتی اصلاح ان کے خاص میدانِ عمل محسوس ہوئے اور انھی امور پر ان سے سننا شروع کیا۔ وہ جاری ہوئے تو لگا کہ علم کا ایک عرفان جاری ہے بات کاٹنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا میں بھی رخ پیالی کی طرف کئے ہمہ تن گوش تھا کہ ان کا رخ بدلا اور سامنے بیٹھے چند من چلے نوجوانوں کی طرف توجہ دلا کہ کچھ دن پرانی بات یاد دلا کہ لاجواب کر دیا حالانکہ میں پہلے ہی بول نہیں پارہا تھا توجہ پھر پیالی کی طرف کر دی اور اپنی ہار مان کے اثبات میں سر ہلا دیا۔کرکٹ کے بھی شیدائی ہیں اور خود بھی اچھے کھلاڑی ہیں لیکن آج کا میچ دیکھنے کا شوق نہیں رکھتےاس کی وجہ دوسرے میچ کی باعزت ہار ہے۔ چائے کے بعد بائک جاکے ان کے گھر کے سامنے پارک کی تاکہ اس علاقے کے لوگوں سے بھی ایصالِ ثواب کرا لوں اور ان کے پر زور اصرار کے باوجود ان کے دولت خانہ کے بجائے چند قدم پیدل چلنا منظور ٹھہرا۔ سنسان تاریک سی کٹی پھٹی سڑک لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ بے مقصد نہیں چل رہے یہاں ان کے مزاح اور علمی استدلال کی پختگی کا احساس شدید تر ہوتا گیا اور اپنی کوتاہ علمی آنے والی شکستہ سڑک سے بھی زیادہ کوتاہ کامت محسوس ہوئی۔ آگے رستہ مسدود اور گھر بھی دریا برد تھے تو واپس پلٹے اور مبشر بھائی شاید اس سے آگے جانا بھی نہ چاہ رہے تھے۔ اپنے اس علاقے کا حدود اربعہ کو بھی خوب جانتے ہیں بازو سے پکڑ کہ ہوش نہ دلاتے تو گھر والے جناب فرجاد کی دریا میں تلاش کو ہرکارے دوڑا رہے ہوتے۔ مبشر بھائی شعری زوق بھی رکھتے ہیں اور خود بھی شعر موزوں کرتے ہیں لیکن شعری نشست اگلی ملاقات پر اٹھا رکھی کہ یار زندہ صحبت باقی لیکن وہ شائد میرے زندہ بچے رہنے پر زیادہ پر امید نہ لگ رہے تھے! پتہ نہیں کیوں؟